Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

دادی کا لاڈلا آچکا تھا ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ ابھی بھی وہ ان کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا، دادی، بہو، بیٹے پوتے اور پوتی کی خیریت دریافت کر رہی تھیں وہ بھی فرداً فرداً بڑی تفصیل سے بتارہا تھا، گاہے بگاہے اس کی نگاہیں الماری صاف کرتی پری کے چہرے پر اٹھ رہی تھیں۔ کاٹن کے سرخ و سیاہ فراک سوٹ میں اس کی شفاف رنگت دمک رہی تھی، سیاہ باڈر والے سرخ پرنٹڈ دوپٹے میں اس کا چہرہ نمایاں ہورہا تھا۔
ستواں ناک، براؤن خوب صورت آنکھوں پر گرتی اٹھتی سیاہ پلکوں کی ریشمی جھالریں، گلاب کی پتیوں کی مانند تراشیدہ گلابی ہونٹ۔ 
وہ خوب صورت تھی یا اس کے بدلے جذبات نے اس کے چہرے کو خوب صورت بنادیا تھا۔ یہ سوال وہ بارہا خود سے کرتا تھا۔ 
”ایک مزے کی بات بتاؤں تمہیں طغرل!،،دادی نے پاندان کھول کر پان کا ٹکڑا توڑتے ہوئے کہا۔


 

”جی ضرور دادی جان!آپ بتارہی ہیں تو یقیناً وہ بات مزے کی ہوگی، جلدی بتائیے ؟ ،،وہ پرتجسس انداز میں گویا ہوا۔
 
”تم جب سے گئے تھے وہ کمرا صرف جھاڑ پونچھ کے لیے ہی کھولا جاتا تھا کل ہی میں نے پری سے کہا کہ جاکر اپنے کمرے میں رہو، یہ بے چاری بچی! منع کرنے لگی اور میں نے زبردستی کمرے میں بھیجا۔ رات سوئی اور صبح ہی صبح تم واپس آگئے ،،وہ پری کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہہ رہی تھیں۔ 
”اوہ پور گرل!تمہارے روم نے ہی تم کو ریجیکٹ کردیا، تم وہاں گئیں تو روم نے مجھ سے کہا کہ میں فوراً واپس آجاؤں ،اس کو میرے علاوہ تمہاری موجودگی ذرا بھی پسند نہیں آئی ،،وہ اسے چڑانے والے انداز میں بولا۔
 
”اور دیکھو روم کی پکار سنتے ہی میں چلا آیا ،،
”خوش فہمی دل سے نکال دیجیے طغرل بھائی ! اچھی نہیں لگتی ،،
”اچھا اچھا …اب بچوں کی طرح لڑنے مت بیٹھ جانا، یہ سب اتفاق کی بات ہے، جاکر طغرل تم آرام کرو۔ سارا دن ہوگیا ہے تمہیں، سفر کی تھکان بھی تم نے نہیں اتاری کھانے کے ٹائم پر جگادوں گی ،،قبل اس کے ان کے درمیان ازلی جنگ چھڑتی انہوں نے مفاہمتی انداز اپناتے ہوئے طغرل کو آرام کرنے کا حکم دیا وہ فوراً کھڑا ہوگیا۔
 
”میں ڈنر نہیں کروں گا دادی جان! لنچ میں نے ٹھیک ٹھاک کرلیا ہے ،،
”پری تم کو دودھ کا گلاس دے دے گی، گرمیوں کی راتیں تو ویسے بھی چھوٹی ہوتی ہیں جلدی گزر جاتی ہیں اگر بھوگ لگے تو اٹھادینا ،،دادی کی تلقین پر وہ سر ہلاتا ہوا کمرے سے چلا گیا۔ 
”پری! کیا بات ہے بیٹی! میں دیکھ رہی ہوں تم پریشان ہو، الماری کے کپڑے تم نے بار بار تہہ کیے ہیں، ہر کپڑے اور بیڈ شیٹ کو بار بار جھاڑا ہوا ہے گویا کسی شے کی تم کو تلاش ہے۔
کیا ڈھونڈ رہی ہو ؟،،وہ طغرل کے جانے کے بعد پری سے گویا ہوئیں جو الماری میں کپڑے ترتیب سے رکھ رہی تھی اس کے چہرے پر بے حد پریشانی و تفکر پھیلا ہوا تھا۔ 
”دادی جان ! میرے فوٹو گراف نہیں ہیں ،،
”اچھی طرح سے دیکھو کہاں جائیں گے ؟ پریشان کیوں ہوتی ہو ؟،،
”آپ کے سامنے ہر کپڑے کو اچھی طرح جھاڑ کر دیکھا ہے میں نے ، پھر مجھے یاد ہے بیڈ شیٹ کے نیچے رکھی تھیں وہ تمام فوٹوگراف لفافے سمیت مگر یہاں وہ موجود ہی نہیں ہیں۔
،،دادی خود اٹھکر الماری کے پاس آئیں اور دیکھنے لگیں مگر وہاں پر لفافہ ہوتا تو وہ ملتا وہ بھی تھک ہار کر بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں ۔ 
”یہ کیسی اچنبھے کی بات ہے نہ کوئی آیا نہ گیا اور لفافہ ہی غائب ہوگیا۔ مجھے بھی یاد ہے تصویریں میرے سامنے تم نے الماری میں رکھی تھیں۔ ،،
”میری غیر موجودگی میں شیری یہاں اس روم میں آتا رہا ہے آپ کے پاس ، کہیں یہ حرکت اس کی ہی تو نہیں ہے دادی؟،،وہ الماری بند کرکے ان کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی ۔
 
”نہیں نہیں پری، اتنی بدگمانی بھی اچھی نہیں ہے وہ بچہ ایسا نہیں کرسکتا پھر بھلا اس کو کیا معلوم تصویریں وہاں رکھی ہیں ؟،،دادی نے سختی سے اس کی بات روکی، پری نے مزید کچھ کہا بھی نہیں کہ اپنی بات میں وزن اسے خود بھی محسوس نہیں ہورہا تھا۔ 
”پھر وہ تصویریں کون لے سکتا ہے ؟کوئی کیا کرے گا تصویریں لے کر ؟،، 
”معاملہ اللہ پو چھوڑدو، خود کو ہلکان کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ،،
”جی دادی جان! میں تو ہر معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتی ہوں یہ بھی اللہ کے سپرد کیا ، آپ کے لیے چائے لاؤں ؟،،وہ گہری سانس لے کر کھڑی ہوئی اور ان سے دریافت کیا۔
 
”السلام علیکم اماں جان ،،فیاض صاحب نے اندر آتے ہوئے سلام کیا اور سنجیدہ لہجے میں پری سے مخاطب ہوئے۔ 
”ایک کپ چائے میرے لیے بھی لے آنا ،،
”جی پاپا! وہ کہہ کر کمرے سے نکل آئی، کچن میں ملازمہ برتن دھورہی تھی پری کو دیکھ کر مسکرائی ،،
”خیرون! تم ابھی تک گھر نہیں گئیں؟،،وہ فریج سے دودھ کا پیکٹ نکالتے ہوئے گویا ہوئی ۔
 
”بیگم صاحبہ نے میری ڈیوتی بڑھادی ہے وہ کہہ رہی تھیں میں رات تک کام کروں وہ پیسے زیادہ دیں گے ۔ طغرل صاحب بھی آگئے ہیں کام بھی بڑھ گیا ہے اس لیے جی ،،
”اوہ…یہ بات دادی جان کے سامنے کرنا، وہ طغرل بھائی کا نام سن کر تمہاری ملازمت ختم کریں گی اور ممی کو الگ سنائیں گی ،،اس نے ساس پین میں دودھ ڈالنے کے بعد برنر جلایا اور چینی اور پتی کے جار نکال کر رکھ رہی تھی ۔
 
”او…ہاں بی بی جی ! ٹھیک کہہ رہی ہو آپ، اماں جان نے تو مجھے چٹیا سے پکڑ کر باہر نکال دینا ہے پھر سچی بات تو یہ ہے طغرل صاحب کا کام زیادہ تر آپ خود ہی کرتی ہیں ،،ملازمہ روانی میں جو کہہ گئی تھی اس پر سخت بدحواسی کا شکار ہوئی ۔ 
”تم اتنا ڈرو مت، اماں کوپتا نہیں چلے گا، میں ایسی باتیں نہیں کرتی ۔ ،،
”ہاں بی بی جی! یہ ایک آپ ہی تو ہیں جن کی وجہ سے ہم جیسے غریبوں کو آسانی مل جاتی ہے آپ بے حد خیال رکھتی ہیں، بی بی جی! میں کئی دنوں سے آپ کو ایک بات بتانا چاہ رہی تھی ،،وہ ادھر ادھر دیکھتی ہوئی راز دانہ انداز میں گویا ہوئی ۔
دودھ میں پتی ڈالتی پری نے حیرانی سے اس کو دیکھا۔ 
”ایسی کیا بات ہے جو اتنی احتیاط برت رہی ہو ،،
”بات ہی ایسی ہے بی بی جی! میں ابھی آتی ہوں ،،وہ کچن سے چلی گئی۔ چند لمحوں بعد آئی تو اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ 
”کہاں چلی گئی تھیں تم…کیا ہوا ہے؟،،وہ جھنجلائی۔ 
”میں دیکھنے گئی تھی بیگم صاحبہ، عادلہ اور عائزہ بی بی ار د گرد کہیں موجود تو نہیں ہیں، باہر کوئی نہیں ہے۔
بی بی جی کچھ دن پہلے میں نے عادلہ بی بی کو دیکھا تھا، وہ یہاں کھڑی چولہے پر رکھ کر کچھ جلارہی تھیں، جلانے سے پہلے انہوں نے مجھے کچن سے نکال دیا تھا، میں نے باہر کھڑکی سے جھانک کر دیکھا ان کی میری طرف پشت تھی،،
”بلاوجہ کیوں سسپنس پیدا کر رہی ہو، جلارہی ہوگی وہ کچھ اور تم کو معلوم ہے مجھے اس قسم کی باتیں پسند نہیں ہیں اپنے کام سے کام رکھا کرو،،وہ چائے نکالتے ہوئے غصے سے بولی۔
 
”میری ایسی عادت نہیں ہے یہ آپ جانتی ہیں مگر جو عادلہ بی بی جلارہی تھیں وہ آپ کی تصویریں تھیں، میں نے خود کھڑکی سے دیکھا تھا ،،
###
”فیاض ! یہ فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کیے جاتے ہیں بیٹا!ً شادی بیاہ گڑیا گڈے کا کھیل نہیں ہے یہ عمر بھر کا بندھن ہوتے ہیں ،،امان جان نے ان کی بات سننے کے بعد تحمل سے سمجھایا۔ 
”میں نے ہر طرح سے سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے اماں جان ! عائزہ کو میں اس ہفتے میں ہی شادی کرکے رخصت کردینا چاہتا ہوں ، اب مجھے صرف آپ کی رائے کی ضرورت ہے ،،
”جب تم نے فیصلہ کرلیا ہے تو میرے رائے کی بھلا کیا اہمیت رہ جاتی ہے جو تم کو کرنا ہے وہ تم کرو، مت پروا کرو میری ،،ان کے سرد مہر انداز پر فیاض نے ان کی طرف دیکھا اماں کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی جو ان کی خفگی ظاہر کر رہی تھی۔
 
”اماں جان! آپ ناراض ہوگئی ہیں مجھ سے ؟،،ان کے لہجے میں صدیوں کی تھکن اتر آئی وہ از حد دلگرفتہ ہوگئے ۔ 
”خوش ہونے والی بات بھی تم نے نہیں کی ہے فیاض !بھلا بتاؤ گھر کی پہلی شادی، پہلی خوشی ہے جس کی محض تیاریوں میں ہی ہفتوں کی مدت چاہیے اور تم کہہ رہے ہو اس ہفتے میں ہی شادی کردو بچی کی گویا شادی نہ ہوئی کوئی جرم ہے جو سب سے چھپ کر کیا جائے ،،وہ حسب عادت ان کو کھری کھری سنارہی تھیں۔
 
”ہم خاندانی لوگ ہیں کوئی اٹھائی گیرے نہیں ہیں، جو اس طرح اپنی بیٹی کسی کو پکڑادیں جیسے کوئی بوجھ اتار پھینکا ہو ،،
”آپ کا غصہ حق بجانب ہے اماں جان ! میں ان تمام تقاضوں کو سمجھتا ہوں خاندان کی رسوائی مجھے بھی منظور نہیں ہے اگر عام حالات ہوتے میں عائزہ کو اسی شان و شوکت سے رخصت کرتا ، جو ہمارے خاندان کا طرہ امتیاز رہا ہے …آہ! لیکن عائزہ نے خاندان کو رسوا کرنے میں کوئی کسر کہاں چھوڑی۔
آپ اچھی طرح جانتی ہیں، میرا اعتماد صباحت کی بیٹیوں پر سے اٹھ گیا ہے ،،بیٹے کی آنکھوں میں اترتی نمی دیکھ کر اماں جان کا چہرہ بھی دھواں دھواں ہوا، کانپتے ہاتھ اس کے شانے پر رکھ کر رسانیت سے گویا ہوئیں۔ 
”اس طرح بدگمان مت ہو بیٹا، جو ہوا سو ہوا، ہمیں کچھ معلوم ہی نہیں ہے اور اب بہتری اسی میں ہے کہ ہم کچھ معلوم نہ کریں تم نے یہ کیا کہا صباحت کی بیٹیاں، وہ تمہاری بھی بیٹیاں ہیں۔
صباحت اپنے جہیز میں ان بیٹیوں کو نہیں لائی تھی ،،
’آپ بالکل بھی میرے سامنے اس عورت کی طرفداری نہ کریں، یہ سب اس عورت ہی کی بے پروائی اور آزادی کا نتیجہ ہے مجھے اگر اپنی بیٹیوں کا خیال نہ ہوتا میں ایک دن بھی صباحت کو یہاں رکھنے والا نہ تھا۔ وہ اچھی بیوی، ماں اور عورت کہلانے کے لائق ہے ہی نہیں ، وہ ہر مقام پر ناکام عورت ہے،، وہ سخت بدظن و کبیدہ تھے ۔
 
”بات دراصل یہ ہے فیاض !جب کسی مرد کے دل کو کوئی عورت بھا جائے پھر وہ عورت کبھی بھی اس مرد کے دل سے نکل نہیں پاتی ۔ تم کو مثنیٰ سے ایسی محبت ہوئی کہ اس کے گھر سے جانے کے باوجود وہ تمہارے دل سے نہ جاسکی، ڈھیروں سال گزرنے کے بعد وہ آج بھی تمہارے دل میں پہلے دن کی طرح موجود ہے ،،اماں جان نے اپنے محسوسات ان پر ظاہر کردیے ۔ 
”یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں اماں جان آپ!یہ کوئی موقع ہے ایسی باتیں کرنے کا ؟ شاید آپ درست کہتی ہیں میں نے مثنیٰ سے محبت دل کی گہرائیوں سے کی ہے اور اس محبت کی قدر نہ کرسکا، اسی زیادتی کی سزا مل رہی ہے مجھ کو ! ،،وہ ذہنی طور پر اس قدر پریشان تھے کہ پل بھر میں اپنی بات کی نفی کر رہے تھے ۔
اماں نے دزدیدہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتی ہوئی گویا ہوئیں۔ 
”تم پریشان مت ہو جو بھی معاملہ ہے ہوشمندی سے سنبھالنا ہوگا ۔ غصہ و جلد بازی بچی کے مستقبل کو بگاڑ دے گی، کس کس کو بتاؤگے آناً فاناً شادی کرنے کا جواز؟پھر اپنے سب سے پہلے انگشت نمائی کرتے ہیں غیر تو بعد میں ہی باتیں کرتے ہیں۔ یہ اپنی صباحت کی ماں کو کم مت سمجھنا، وہ سب سے پہلے طوفان مچائیں گی کہ جتنی زمین کے اوپر ہیں اس سے کہیں زیادہ زمین کے نیچے وجود رکھتی ہیں ،،

   1
0 Comments